ایک چیخ تھی ایسی جو دل چیر گئی
دن کے روشن اجالوں میں
شہر کے کچے گھروندوں میں
رات کےبڑھتےسایوں میں
ان بوسیدہ مکانوں میں
اثر والوں کی نظروں سے اوجھل
بھوک سے بلکتے بچوں کی...
اک چیخ تھی ایسی جو دل چیر گئی…ا
سماج کی ریتوں کی بھینٹ پر
جہیز کی لعنت کو دل پر لیے...
سر میں اترتی چاندی اور
اکھیوں میں گہری اداسی لیے...
باپ کے گھر میں بیٹھی ہوئی
ایک ڈھلتی عمر کی بیٹی کی...
اک چیخ تھی ایسی جو دل چیر گئی...ا
بے پرواہ بچپن کی چوکھٹ پر
ہنسی خوشی قدم رکھتی...
عزت بچانے کے ڈر سے ناآشنا
حرص و ہوس کی نذر ہوتی
اپنی تار تار ردا کو لیے
کسی کوثر, کسی زینب کی...
اک چیخ تھی ایسی جو دل چیر گئی...ا
اونچی دکان کے شیڈ پہ پڑے
کھلونوں کو حسرت سے تکتے ہوئے
ننھے سےھاتھوں میں کالک لیے
کتابوں کی جاء پر اوزاروں کو تھامے
آنکھوں میں خواب اور حسرت لیے
ایک معصوم "چھوٹے" کی...
اک چیخ تھی جو کے دل چیر گئی...ا
بہت عمدہ
ReplyDelete