آ دکھاؤں تجھے چیخوں کا خاموشی سے نکلنا، پھر مر جانا۔۔
                                                                         
زندگی میں جہاں خوشیوں پر رقص ہوتا ہے، وہیں غم و ماتم کا عکس بھی ہوتا ہے، آسانیاں آتیں ہیں مگر مشکلات کے ساتھ۔۔
بعض دفعہ مشکل  نہیں لگتا خود کو درد سے نکال لینا، اذیتوں کے سمندر کی گہرائی میں ڈوب کر کنارے تک ابھرنا اور یہ ثابت کر دینا کہ اگر درد میں دم ہے تو ہم بھی کم نہیں۔۔
مگر ہاں ہر بار، ہر جگہ، ہر کسی کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا،
جب درد انسان کو کرچی کرچی کردینا چاہے اور سمیٹنے کو شیشہ گر بھی نہ ہو کہ کرچیاں ہی سمیٹ لے، جب ماضی، کسی کے حال اور مستقبل کو اس طرح گھیر لے کہ جینا اور مرنا ایک سا ہو جائے، جب وقت کے جزیرے پر کھڑی، سفید خوبصورت گھوڑے پر آنے والے شہزادے کی منتظر شہزادیاں  مایوسی کی دلدل میں دم توڑنے لگیں، تب درد ، درد نہیں رہتا، "چیخ" بن کر  نکلتا ہے،  گونجتا ہے ، دھاڑتا ہے، سننے والوں کے دلوں کو لرزاتا ہے، دلوں کو موم کرتا ہے  اور پھر کہیں فضاؤں میں تحلیل ہوجاتا ہے۔۔
ایسا درد تو  کسی "بلند چیخ " کا لبادہ اوڑھے راستوں کو فریب دے کر اپنی منزل پا لیتا ہے، مگر جب ہر طرف  قہقہے ہوں،  ظلم کے قوانین گونجنے لگیں، مایوسی کا سائرن بجنے لگے اور اعتبار نفرتوں کی لگائی آگ سے دھواں بن کر آسماں کی جانب اڑنے لگے تو یہ چیخ اپنا اثر ہی کھو دیتی ہے،
اسکی شدت  وہی ہوتی ہے، ویسا ہی درد کا ساز، مگر تھیوری آف ریلیٹیویٹی کے مطابق دنیا کے شور میں  وہ شور نہیں لگتی،  روتی ہے، چیختی ہے اور بے حسی کے موسم میں گڑگڑاتی ہوئی "خاموش چیخ" بن جاتی ہے۔۔
* کبھی سنی ہے آپ نے وہ خاموش چیخ جو کسی معصوم بچے کے حلق میں دب سی جاتی ہے،جب اس کے معصوم ہاتھوں میں قلم کی جگہ مقدر کی سیاہی تھما دی جاتی ہے۔
* وہ خاموش چیخ جو کسی بیوہ کی بے بسی کا اعلان کرتے کرتے اس کے کچے آنگن میں ہی دفن ہوجاتی ہے۔۔
* اور وہ خاموش چیخ، جو عورت کے منہ سے اس وقت کانپتی ہوئی نکلتی ہے جب وہ مجبوری میں ظالم شوہر کا ستم اٹھاتی ہے کہ شوہر کے گھر سے اس کا جنازہ جائے تو جائے، آبرو نہ جائے۔۔
* وہ خاموش چیخ جو کسی بہت اپنے کی محرومی کی یاد میں چپکے سے لبوں کے تالے کھول کر نکل جاتی ہے، کہ دل میں قید ہوگئی تو روگ بن جائے گی۔۔
* وہ خاموش چیخ جو کسی غریب رکشے والے کی آنکھوں سے اس وقت آنسوؤں کی صورت بہہ نکلتی ہے جب اسکی پورے دن کی کمائی ٹریفک چالان کی نظر ہوجائے   ۔۔
* وہ خاموش چیخ جو ماں کو کسی درد میں تڑپتے دیکھنے والے کسی بچے کے حلق سے نکلتی ہے جب دوا، دعا سے بے حد مہنگی ہو۔۔
* وہ خاموش چیخ جو بچپن میں ہی زندہ درگور کر دینے والی کسی بیٹی کی روح سے نکلتی ہے،مگر بلند ہونے کی چاہ میں مر جاتی ہے۔۔
* وہ خاموش چیخ جو ہر محنت کش کے دل سے تب نکلتی ہے جب اسکا پسینہ حلال کرنے کو مناسب اجرت دینے سے انکار کیا جاتا ہے۔۔
* وہ خاموش چیخ جو کسی کے حلق سے نہیں بلکہ دل سے اس وقت نکلتی ہے جب وہ اندر سے زہر آلود ہو، آنسوؤں کا غبار بھی دل میں رہے، وہ دنیا والوں کو چِلّا کر اپنا دکھ بتانا چاہےمگر بے حسی اور خود غرضی کے پجاری اسے کافر کہہ کر ناتا توڑیں اور خدا کے گھر  سے دربدر کر دیں۔۔
اور کتنی چیخوں کا ذکر کروں جو خود پر فخر کرتی تھیں مگر پھر انہیں خاموش کر دیا گیا، مگر جناب سننا چاہیں تو یہ خاموش سی چیخیں بھی سنائی دے جایا کرتی ہیں، اگر دل سننا چاہے، بلکہ یہ تو روح پر وار کرتی ہیں، ضمیر کو جھنجھوڑتی رہتی ہیں، بڑی خاموشی سے، بڑے احترام سے، بہت سلیقہ شعار ہوتی ہیں یہ خاموش چیخیں، ہاں مگر ذرا ڈرپوک ہوتی ہیں، دستک دیتی ضرور ہیں،مگر دروازہ بند ہی ملے تو دوبارہ دستک دے کر گہری نیند سے بیدار نہیں کرتیں، چپکے سے آنسو بہاتی ہیں اور نازک خوابوں کو پلکوں پر سجائے  ڈرتی ہوئی مر جاتی ہیں۔۔
(حرا چودھری  سیکنڈ ائیر)





Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

The Comprehensive USMLE Guide For Pakistani Medical Students (Part 1: USMLE - An Introduction)

Reflection of my moon