اپنی ہی سسکیوں کے ستائے ہوئے لوگ

                                                                                                                                                                              
اک ماں کی زندگی!زندگی
ذہن جھٹکتا، دل کھڑ کتا اور  روح تڑپتی ہے
ہنستے ہوئے چہرے سے بن بولے اداسی جھلکتی ہے! ے
آج قلم اٹھایا تو ادھورے سے ذہن کے بند کواڑوں سے روشنی کی جھلکتی کرنوں کی مانند اک جملہ میرے ذہن کو اپنا اسیر کر گیا وہ جملہ تھا: "اپنی ہی سسکیوں کے ستائے ہوئے لوگ"گ
پھر دماغ آہستہ آہستہ معاشرے کے ا یک مخصوص طبقہ کی جانب جانے لگا جسکو دنیا ادب سے "سفید پوش" کہتی ہے
ذہن کی بند آنکھیں کھلیں تو اس طبقہ کی ایک  خاموش ماں نظر آئی جو سادگی اور مشقت کا لحاف اوڑھے، دل میں روشنی اور امیدوں کا انبار لیے دروازے پہ کھڑی اپنی اولاد کو سکول جاتے اس خواہش کے ساتھ دیکھتی ہے کہ یہ مستقبل کے روشن افسر ہیں، یہ وہ ماں ہے جو اداسیوں سے لت پت سجدوں میں اپنی اولاد کی خوشیوں کے لئے روتی اور اپنے کروڑوں اشکوں کا سودا اپنے رب سے کرتی، صبر کا گھونٹ پیئے زمانے کی بے حسی کا شکار اپنے نصیب کا رونا روتے  دکھائی دیتی ہے، یہ وہ ماں ہے جو ہاتھ پھیلانے سے قاصر ہے،  اک امیر ماں اپنی دولت میں مست اولاد سے غافل  ہوتی ہے اور اک غریب ماں اپنی اولاد کو لوگوں کے سامنے ٹھوکریں کھانے کے لیے پیش کر دیتی ہے جبکہ اس طبقہ کی ماں رات دن اپنی اولاد کو اپنی سوچ کا مرکز بنائے اپنے رب سے  اپنے بچوں کےلئے خیر مانگتئ ہوئی نظر آتی ہے
جسے دیکھ کے ذہن سے چیخ اٹھتی ہے کہ: کہ
تم کبھی  یہ اداس منظر دیکھو
آنکھوں کے سرخ کناروں پہ سمندر دیکھو
کتنے غمگین ہیں باہر سے ہنسنے والے
وقت پاو تو کبھی جھانک کے اندر دیکھو
زمانے کی تنگ دستی میں بھی اپنے گھر کا بھرم رکھے,اپنی ضروریات کو نظر انداز کر تے اپنی اولاد کی خوشیوں اور خواہشات کو پورا کرنے کی  خاطر دربدر کی ٹھوکریں کھاتی، لوگوں کو  شرمندہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے نظر آتی ہے لیکن سفید پوشی کا بھرم سنبھالے ہوئے ہے،ہے 
 محنت سے چُور چُور ہڈیوں کو گھسیٹی اپنی ذات پہ اپنے بچوں کو فوقیت دیتے ہوئے اس آ س میں زمانے کی چکی پیستی ہے کہ یہ چکی اسکے بچوں کا مستقبل سنوارے گی مگر زمانے کی چکّی جب اسکے بچوں کو کچلنے اور دولت والوں کے ٹھکروں کا حقداد بنانے لگتی ہے تو اسکی  بے زبان چیخیں دنیا کے کونے کونے کو ہلا  دیتی ہیں مگر دنیا تو خاموش تماشائی بنی نظر آتی ہے جو اس معاملہ سے ہی بے خبر اپنی رونق میں گم ہے اور اس بے زبان کو سننے والاکوئی نہیں......گ
دیوار و در سے اتر کر پرچھائیاں بولتی ہیں
 کوئی نہیں بولتا جب اک ماں کی سسکیاں بولتی ہیں!!گ
ربیحہ عمارہ (سال: چہارم ٢٠١٥-٢٠٢٠)




Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

The Comprehensive USMLE Guide For Pakistani Medical Students (Part 1: USMLE - An Introduction)

Reflection of my moon