Urdu blog for the month of May
محفل کی رعنائیاں اپنے عروج پر تھیں۔ جگمگ کرتے قمقموں سے لے کر فلک شگاف قہقہوں تک، اس ایک لمحے میں سب کچھ بہترین ہی تو تھا۔ آج کی شام اس کے نام کی ہی تو تھی ۔اس وقت وہ سینکڑوں نظروں کے حصار میں تھی اور کوئی تھا جو اس کی نظروں کے حصار میں تھا۔
"وہ دو اداس آنکھیں " یوں لگتا تھا جیسے جہاں بھر کی اداسی ان میں سمٹ آئی ہو۔ حسرت لئے ہر آنے جانے والے کو تکتی وہ آنکھیں ۔
اسے پل بھر کے لئے کوئی یاد آیا۔ ایسی بے بسی کہیں اور بھی دیکھی تھی ۔
"مسز آفندی " کوئی آواز اسے ہوش میں لے آئی تھی اور وہ آنے والے کے ساتھ محوِ گفتگو ہو گئ ۔ اب کے جو بات چلی تو برانڈیڈ کپڑوں اور جوتوں سے شروع ہو کر مسٹر اینڈ مسز نیازی کی طلاق پر ختم ہوئی ۔
وہ دو نگاہیں اسے اپنے آس پاس ہی محسوس ہوئیں ۔ وہ پلٹی۔ اب کے مطمع نظر وہی وجود تھا جو اس سے چند ہی قدم دور درخت کی اوڑھ سے ہر آتے جاتے کو حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھنے میں مصروف تھا ۔ اس نے بغور اس کا جائزہ لیا ۔ ٹوٹی چپل پہنے مٹی سے اٹے پاوں اور گرد آلود لباس جس پر لگے جا بجا رنگ برنگے پیوند جو لباس پر ایک نیا نقش بنا رہے تھے ۔ اس پر ایک چھوٹا سا ڈوپٹہ جسے مضبوطی سے سر پر جمانے کے لئے ایک ہاتھ سے تھامے وہ بغیر پلکیں جھپکے ہر آنے جانے والے کو حسرت سے دیکھتی ۔
دو پل کے لئیے اس کی توجہ مہمانوں کی طرف ہوئی پر پس پردہ اب بھی لوح خیال پر اسی کی تصویر چل رہی تھی ۔ رسم دنیا بھی نبھانی تھی سو وہ آتے جاتے مہمانوں سے ملنے ملانے میں مشغول ہو گئ۔
اب کے وہ پلٹی تو پھر سے وہی ہستی مرکزِ نگاہ بن گئی جو اب کے میز پر پڑا کسی کا خالی گلاس اٹھائے اس سے کھیلنے میں مصروف تھی ۔ وہ بڑی ادا سے دو انگلیوں میں گلاس کا پیندہ اٹکائے اسے منہ تک لے جاتی اور لبوں سے لگائے اسے پینے کی مکمل اداکاری کرتی اور ناز سے ہاتھ ہلا کے ہنسنے لگتی ۔ وہ اسے دیکھتے ہوئے زیر لب مسکرائی۔ اسے کوئی یاد آیا تھا ۔ اس نے بھی تو پہلی بار وائن گلاس ایسے ہی تھاما تھا۔ ہاں مگر اس میں تب اتنی نزاکت نہیں تھی ۔ اسے لگا جیسے اپنا عکس دیکھ رہی ہو ۔ مالکن کی غیر موجودگی میں ان کے اونچی ایڑی کے جوتے پہن کر وہ بھی تو مٹک مٹک کر چلتی اور جب وہ منہ گھما گھما کر اپنی خود ساختہ انگریزی بولتی تو جی چاہتا اپنے ہی صدقے واری جائے ۔ اسے یاد آیا کہ اماں اسے ہر وقت ڈانٹتی رہتی کہ اونچے سپنے نہ دیکھے ۔ آج وہ سپنے حقیقت کا روپ دھارے اس کے سامنے تھے تو اسے حقیقت سے نفرت تھی ۔انھی سپنوں کو حقیقت میں بدلنے کے لئے اس نے کتنی محنت کی تھی، کتنی قربانیاں دی تھیں کوئی اس کے دل سے پوچھے ۔ مگر سپنے تو سپنے تھے اور حقیقت کھوکھلی۔ سپنوں اور حقیقت کے بیچ کا جو دورانیہ تھا وہی زندگی تھی۔
کھانا لگ گیا تھا ۔ اس کے سامنے موجود نفس آنکھوں میں مایوسی اور حسرت سموئے اپنے اردگرد موجود لوگوں کو طرح طرح کے ذائقے کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے دیکھ رہا تھا ۔ اس کا دل چاہا کہ ایک ہاتھ بڑھا کر اسے بھی اپنے ساتھ کھانے میں شریک کر لے مگر لوگ کیا کہیں گے۔یہاں تو وہ مسز آفندی تھی عام سی عالیہ نہیں ۔ سو وہ خیال جھٹک کر اپنی نشست کی طرف بڑھ گئی ۔
کسی کے چیخنے کی آواز آئی وہ مسز انصاری تھیں جو بچی ساتھ لانے پر کام والی بوا پر خفا ہو رہی تھیں اور ان کے ساتھ موجود وہ وجود اب خوف سے لرز رہا تھا ۔ ایسے ہی کسی سانحے کے بعد اپنی روتی ہوئی ماں کا چہرہ اس کی نظروں کے سامنے گھوم گیا ۔
وہ مسز انصاری ہوں، بوا ہوں، وہ خود ہو یا خوف سے لرزتا وہ وجود۔ کسی کی قدروقیمت کا گواہ اس کا لباس یا رہن سہن کیسے ہو سکتا ہے مگر یہ بات وہ کسی کو کیسے سمجھا سکتی تھی،وہ خود بھی تو انہی نظریات کی قیدی تھی ۔ اس نے اک آہ بھری "ہاہ! ہم انا، امارت اور خود پرستی کے قفس کے باسی"
تحریر :
آمنہ اکرام
فائنل ائیر
فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی
How somebody can write this good♥️♥️♥️
ReplyDelete